ماہر نفسیات ڈاکٹر میکرائڈ نے بچوں کے نفسیاتی خوف کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ بچپن میں خوف کا جو بیج ذہن میں پڑجاتا ہے۔ وہ برسوں تک لاشعور کے اندر پڑا رہتا ہے۔ پیدائش کے بعد بچے اپنی نشوونما کے دوران جن دشواریوں سے دو چار ہوتے ہیں۔ وہ ان کی آئندہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ مثلاً جو بچے دیر سے چلنا بولنا سیکھتے ہیں۔ وہ ابتداء سے احساس محرومی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں۔ اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کا سہارا بن کر ان کی طرف توجہ کریں اور جب ان کو یہ توجہ نہیں ملتی تو ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کا جذبہ ان میں باقی نہیں رہتا۔والدین کا غلط رویہ:اگر والدین ’’ایسا نہ کرو‘ ڈائن پکڑےلے گی۔ جن کھا جائے گا۔ بابا اٹھا کے لے جائے گا‘‘ کا طریقہ زیادہ استعمال کرتے ہیں تو بچوں کے ذہن میں ڈر، خوف خواہ مخواہ گھر کر جائے گا۔ آپ کا بچہ نالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آپ غضب ناک ہوکر بڑی شدت سے چلاتے ہیں۔ ’’ناں‘‘۔ نالی کے قریب پہنچنے اور آپ کی کرخت آواز اور ڈروائونی ناں ایک ساتھ سنتے رہنے سے بچہ نالی سے کترانے لگتا ہے اور قدرے خائف بھی ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ خوف اس میں اس قدر پختہ ہو جاتا ہے کہ آپ خود بھی تنگ آجاتے ہیں اب وہ نالی دیکھتے ہی چیخنے چلانے لگتا ہے۔ اگر اس وقت آپ اس خوف کے مناسب علاج کی طرف دھیان نہ دیں تو ممکن ہے بڑا ہوکر وہ نالی سے مشابہ نالوں اور نہروں وغیرہ سےبھی غیر معمولی طور پر خائف رہنے لگے۔بعض اوقات بچہ کھیلتے کھیلتے کسی ایسی چیز کو پکڑلیتا ہے۔ جس کے ٹوٹنے یا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ماں یہ چیز بچوں سے چھین کر علیحدہ رکھ لیتی ہے اور اگر روکنے کے باوجود بچہ اسے بار بار پکڑنے سے باز نہ آئے تو ناسمجھ مائیں عموماً اسے ایک آدھ چپت رسید کرکے وہ چیز بھی چھین لیتی ہیں۔ چپت لگانے سے بچوں کو بدنی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ تکلیف سے بہت زیادہ گھبراتے ہیں۔ چنانچہ اب وہ بدنی سزا کے خوف کے ساتھ ساتھ اس چیز سے بھی ڈرنے لگتے ہیں۔ ماں کو اس طرح قدرے سکون تو میسر آجاتا ہے۔ مگر بچے کی جذباتی زندگی بگڑ جاتی ہے۔ بچوں کی ذہنی زندگی کی تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بیشتر خوف اسی طرح کی ننھی ننھی باتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ نفسیاتی تجربہ گاہوں میں متعدد تجربوں اور مسلسل تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بالغ عمر کے اکثر خوف چھوٹی عمر میں والدین کی ناقص تربیت اور ناسازگار ماحول کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
ننھا شیر خوار ابتداء میں محض کرخت آوازوں سے اپنا جسمانی توازن کھو دینے سے ہی فطری ڈر محسوس کرتا ہے۔ ماہرین نے دیکھا کہ نوماہ کے ایک بچے کے قریب جب پہلی بار مختلف جانور مثلاً مینڈک، مچھلی، کبوتر، خرگوش اور بے ضرر سانپ وغیرہ لائے گئے تو اس نے بالکل خوف کا اظہار نہ کیا۔ بلکہ ان سے کھیلنے لگا اور ان سے مانوس ہوتا چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب بچہ ان جانوروں سے کھیلنے لگا اور ان سے مانوس ہوتا چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب بچہ ان جانوروں سے کھیلنے میں مشغول تھا تو اس کے قریب ایک بلند اور کرخت آواز سے بجنے والا آلہ نصب کردیا گیا۔ بچہ ایسی اونچی آوازوں سےتو پہلے ہی ڈرتا تھا۔ اب جب جانوروں سے کھیلتے کھیلتے وہ ڈرائونی آوازیں سنتا تو اس تلازم کی وجہ سے وہ ان بے ضرر جانوروں سے بھی خوف کھانے لگا۔ حتیٰ کہ خرگوش ایسی کھال والے دوسرے جانوروں کے علاوہ ہر کھال دار چیز سے بھی خوف کھانے لگا۔ بھیانک آواز کے اس فطری خوف کی وجہ سے وہ بعد میں فقط اندھیرے ہی سے خائف رہنے لگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں